A special tribute to Meera G on his 110th birth anniversary by Majlis E Iqbal GC University Lahore.
33 views
0

 Published On May 25, 2022

میراؔ جی کا یومِ پیدائش
May 25, 1912

آج جدید اردو نظم کے بنیاد سازوں میں شامل ممتاز شاعر میراؔ جی کا یومِ پیدائش ہے۔
میراجی کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا اور وہ 1912ء میں پیداہوئے تھے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے انجینئر تھے جن کا مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتے رہنے کی وجہ سے میرا جی کی تعلیم و تربیت بھی مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر ہوئی۔ میرا جی نے کم عمری سے ہی نظمیں کہنے کا آغاز کیا‘ ابتدائی دور شاعری میں وہ سامری تخلص کرتے تھے۔ بالآخر وہ لاہور میں رہائش پذیر ہوئے یہاں میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی ان کی زندگی میں داخل ہوئی‘ جس کے عشق میں انہوں نے اپنا نام بھی میرا جی رکھ لیا اور ان کی زندگی اس طرح بدل گئی جیسے انہوں نے نیا جنم لیا ہو۔
کچھ دنوں بعد انہوں نے حلقۂ ارباب ذوق میں دلچسپی لینی شروع کی۔ 1937ء میں وہ رسالہ ادبی دنیا کے نائب مدیر بنے۔1941ء میں انہوں نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کی جہاں انہوں نے گیت نگاری کی طرف توجہ کی جن کا مجموعہ ’’گیت ہی گیت‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ چند سال دلی میں گزارنے کے بعد وہ بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے ایک ادبی رسالہ خیال جاری کیا۔ 3 نومبر 1949ء کو انہوں نے بمبئی کے ایک اسپتال میں وفات پائی۔
میرا جی ایک ایسے شاعر تھے جنہیں اردو ادب میں باغی شاعر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ باغی اس لیے کہ انہوں نے ن۔م۔ راشد کی طرح اردو نظم کی روایت سے مکمل بغاوت کی اور اپنی منظومات کو موضوع اورتکنیک ہر دو لحاظ سے بالکل نئے رنگ میں پیش کیا۔
میرا جی کے متعدد مجموعہ کلام شائع ہوئے جن میں مشرق و مغرب کے نغمے ، میرا جی کی نظمیں اور نگار خانہ کے نام سرفہرست ہیں۔ان کی کلیات، کلیاتِ میرا جی کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔
من مورکھ مٹی کا مادھو، ہر سانچے میں ڈھل جاتا ہے
اس کو تم کیا دھوکا دو گے بات کی بات بہل جاتا ہے

جی کی جی میں رہ جاتی ہے آیا وقت ہی ٹل جاتا ہے
یہ تو بتاؤ کس نے کہا تھا، کانٹا دل سے نکل جاتا ہے

جھوٹ موٹ بھی ہونٹ کھلے تو دل نے جانا، امرت پایا
ایک اک میٹھے بول پہ مورکھ دو دو ہاتھ اچھل جاتا ہے

جیسے بالک پا کے کھلونا، توڑ دے اس کو اور پھر روئے
ویسے آشا کے مٹنے پر میرا دل بھی مچل جاتا ہے

جیون ریت کی چھان پھٹک میں سوچ سوچ دن رین گنوائے
بیرن وقت کی ہیرا پھیری پل آتا ہے پل جاتا ہے

میرا جی روشن کر لوجی، بن بستی جوگی کا پھیرا
دیکھ کر ہر انجانی صورت پہلا رنگ بدل جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا، کیا اب تم سے بیان کریں
غم بھی راس نہ آیا دل کو، اور ہی کچھ سامان کریں

کرنے اور کہنے کی باتیں، کِس نے کہیں اور کِس نے کیں
کرتے کہتے دیکھیں کسی کو، ہم بھی کوئی پیمان کریں

بھلی بُری جیسی بھی گزری، اُن کے سہارے گزری ہے
حضرتِ دل جب ہاتھ بڑھائیں، ہر مشکل آسان کریں

ایک ٹھکانا آگے آگے، پیچھے پیچھے مسافر ہے
چلتے چلتے سانس جو ٹوٹے، منزل کا اعلان کریں

میر ملے تھے میرا جی سے، باتوں سے ہم جان گئے
فیض کا چشمہ جاری ہے، حفظ ان کا بھی دیوان کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا، دل میں دُھن بھی سمائی ہے
میرا جی دانا تو نہیں ہے، عاشق ہے، سودائی ہے

صبح سویرے کون سی صُورت پُھلواری میں آئی ہے
ڈالی ڈالی جُھوم اُٹھی ہے، کلِی کلِی لہرائی ہے

جانی پہچانی صُورت کو اب تو آنکھیں ترسیں گی
نئے شہرمیں جِیون دیوی نیا رُوپ بھر لائی ہے

ایک کِھلونا ٹُوٹ گیا تو اورکئی مِل جائیں گے
بالک! یہ انہونی تجھ کو کس بیری نے سُجھائی ہے

دھیان کی دُھن ہے امرگیت، پہچان لِیا تو بولے گا
جس نے راہ سے بھٹکایا تھا وہی راہ پر لائی ہے

بیٹھے ہیں پھلواری میں، دیکھیں کب کلِیاں کِھلتی ہیں
بھنور بھاؤ تو نہیں ہے، کس نے اِتنی راہ دِکھائی ہے؟

جب دل گھبرا جاتا ہے، تو آپ ہی آپ بہلتا ہے
پریم کی رِیت اِسے جانو پر ہونی کی چترائی ہے

امیدیں، ارمان سبھی جُل دے جائیں گے، جانتے تھے
جان جان کے دھوکے کھائے، جان کے بات بڑھائی ہے

اپنا رنگ بھلا لگتا ہے، کلِیاں چٹکیں، پھُول بنیں
پُھول پُھول یہ جُھوم کے بولا، کلیو! تم کوبدھائی ہے

آبشار کے رنگ تو دیکھے لگن منڈل کیوں یاد نہیں
کس کا بیاہ رچا ہے؟ دیکھو! ڈھولک ہے شہنائی ہے

ایسے ڈولے من کا بجرا جیسے نین بیچ ہو کجرا
دل کے اندردُھوم مچی ہے جگ میں اُداسی چھائی ہے

لہروں سے لہریں ملتی ہیں ساگر اُمڈا آتا ہے
منجدھارمیں بسنے والے نے ساحل پر جوت لگائی ہے

آخری بات سُنائے کوئی، آخری بات سُنیں کیوں ہم نے
اِس دُنیا میں سب سے پہلے آخری بات سُنائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بُھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا

کیا بُھولا، کیسے بُھولا، کیوں پوچھتے ہو؟ بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی، بھولا بھالا بھول گیا

کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے، پہلے پیار کا سُندر سپنا بھول گیا


اپنی بیتی جگ بیتی ہے جب سے دل نے جان لیا
ہنستے ہنستے جیون بیتا رونا دھونا بھول گیا

جس کو دیکھو اُس کے دل میں شکوہ ہے تو اتنا ہے
ہمیں تو سب کچھ یاد رہا، پر ہم کو زمانہ بھول گیا

کوئی کہے یہ کس نے کہا تھا، کہہ دو جو کچھ جی میں ہے
میرا جی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھول گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا، بیٹھ اکیلے رونا ہوگا
چپکے چپکے بہا کر آنسو، دل کے دکھ کو دھونا ہوگا

بیرن ریت بڑی دنیا کی، آنکھ سے ٹپکا جو بھی موتی
پلکوں ہی سے اٹھانا ہوگا، پلکوں ہی سے پرونا ہوگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترک تعلق

غیرآباد جزیروں میں چلا جاؤں گا
عمْر بھرلَوٹ کے میں پھرنہ کبھی آؤں گا

شہرمیں سانس بھی لینا ہے مجھے اب دو بھر
شہر کی تلْخ فضاؤں سے نِکل جاؤں گا

دُور جا بیٹھوں گا ہنگامۂ شوروشر سے
قلْبِ محزوں کو میں تنہائی سے بہلاؤں گا

show more

Share/Embed