A tribute to Ibn e Insha on his 44th death anniversary by MAJLIS-E-IQBAL GCU Lahore.
37 views
0

 Published On Jan 11, 2022

آج مشہور و معروف شاعر اور مزاح نگار ابن انشاء کا یوم وفات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعر، مزاح نگار، اصلی نام شیر محمد خان تھااور تخلص انشاء۔ آپ 15 جون 1927 کوجالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔

1946ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔
۔

دو شعری مجموعے، چاند نگر اور اس بستی کے کوچے میں شائع ہوچکے ہیں۔
1960ء میں چینی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ (چینی نظمیں) شائع ہوا۔

یونیسکو کےمشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی و ایشیائی ممالک کا دورہ کیا تھا۔ جن کا احوال اپنے سفر ناموں چلتے ہو تو چین چلو ، آوارہ گرد کی ڈائری ، دنیا گول ہے ، اور ابن بطوطہ کے تعاقب میں اپنے مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں تحریر کیا۔

اس کے علاوہ اردو کی آخری کتاب ، اور خمار گندم ان کے فکاہیہ کالموں کے مجموعے ہیں۔

آپ کا انتقال 11 جنوری 1978 کو لندن میں ھوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن انشاء نے اپنی شاعری کا آغاز ایسے وقت میں کیا جب ادبی فضا ترقی پسند تحریک کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ فوری طور سے ابن انشاءنے انجمن ترقی پسند مصنّفین کا پیش کردہ ادب برائے زندگی کا نظریہ قبول کر لیا۔ لیکن انھیں بہت آگے جانا تھا۔ لہٰذا بہت جلد ہی ترقی پسند تحریک سے نظریاتی وابستگی کا طوق گلے سے اتار پھینکا اور خود اپنے تخیل کی رہنمائی میں شاعری کی رفعتوں کا مہتم بالشان سفر طے کیا۔
۔
ابن انشاءکو مکمل طور سے ادبی دنیا کی ہمہ جہت شخصیت کہا جا سکتا ہے۔ ایک ممتاز غزل گو ہونے کے ساتھ ساتھ یہ نابغہ فن ایک بہترین مزاح نگار، ترجمہ نویس، مشہور سفرنامہ نگار (Travelogue writer) اور کالم نویس بھی تھا۔ انشاءکی شاعری جتنی بلند پایہ ہے، اتنا ہی اعلیٰ مقام انہیں سفرنامے کے فن اور ظریفانہ ادب میں بھی حاصل ہے۔

ایک خطوط کا گلدستہ، تین شعری مجموعے اور دو ظریفانہ تصنیفات ابن انشاءکی ادبی میراث کا حصہ ہیں اور یہ میراث رہتی دنیا تک قارئین شعر و ادب کے درمیان تقسیم ہوتی رہے گی۔

ابن انشاءکا اصل نام شیر محمد قیصر تھا۔ ان کی پیدائش 15 جون 1927 کو لدھیانہ (ہندوستان) میں ہوئی۔ وہ زمانہ¿ طالب علمی سے ہی شاعری کی جانب ملتفت ہو چکے تھے۔
1945ءمیں 20ویں صدی کی سب سے بڑی ادبی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور انجمن ترقی پسند مصنّفین کے رکن بنے۔ ۔
پاکستان منتقل ہو کر انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی اے آنرس کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔ اسی دوران صحافت سے وابستگی اختیار کی اور پاکستان کے مشہور اردو روزنامہ جنگ کے لئے حرف و حکایت کے عنوان سے کالم تحریر کرنا شروع کیا۔ نیز روزنامہ ’امروز‘ کراچی میں ’خانہ بدوش‘ کے قلمی عنوان سے صحافتی خدمات انجام دیں۔ کراچی میں دوران قیام ابن انشاءکو مولوی عبدالحق جیسے بلند پایہ محقق سے کسب فیض کا موقع ملا۔ یہی وہ ’ٹرننگ پوائنٹ‘ ہے جہاں سے ایک نوخیز قسم کا نوجوان ایوانِ ادب میں پوری فن کارانہ بصیرت کے ساتھ جلوہ گر ہوتاہے اور خالص ہندوستانی اسلوب اختیار کر کے شاعری کے فن کو عروج بخشتا ہے۔

پیش خدمت ہے اس طلسماتی غزل کے چند اشعار:

کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا
ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پوچھا کئے
ہم ہنس دئیے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردا ترا
کوچے کو تیرے چھوڑ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر


ابن انشاءکی شہرت کا دوسرا اہم ترین سبب ان کے سفرنامے ہیں۔ ان سفرناموں میں ’چلتے ہو تو چین کو چلئے‘ اور ’ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘ نمایاں طور سے خصوصیت کے حامل ہیں۔
۔
شاعری کے ساتھ ساتھ ابن انشاءکو نثری اصناف میں بھی کمال حاصل تھا۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ تصنیف ’اردو کی آخری کتاب‘ اور ’خمار گندم‘ کو ظریفانہ ادب میں خصوصی مقام حاصل ہے۔ اس میں انہوں نے مزاح کے پردے میں ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بلیغ طنز کیا ہے۔
’اردو کی آخری کتاب‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

”یہ کون سا ملک ہے؟
یہ پاکستان ہے۔
اس میں پاکستانی قوم رہتی ہوگی؟
نہیں، اس میں پاکستانی قوم نہیں رہتی! اس میں سندھی قوم رہتی ہے، اس میں پنجابی قوم رہتی ہے، اس میں بنگالی قوم رہتی ہے، اس میں یہ قوم رہتی ہے، اس میں وہ قوم رہتی ہے۔
لیکن پنجابی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں، سندھی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں، پھر یہ الگ ملک کیوں بنایا؟
غلطی ہوئی، معاف کیجئے۔ اب نہیں بنائیں گے!!!“

ابن انشاءکی تحریروں کی نمایاں خصوصیات میں طنز و مزاح، پیروڈی کا انداز، وسعت معلومات، سیاسی بصیرت اور صورتِ واقعہ سے مزاح کشید کرنا وہ خاص عناصر ہیں جن کی بدولت ابن انشاءکو ’ادبی لیجینڈ‘ کا تاج حاصل ہوا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی نے ابن انشاءکے مزاحیہ اسلوب کے حوالے سے لکھا تھا:

”بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے“۔

مشتاق احمد یوسفی کے اس قول کی تصدیق ابن انشاءکے آخری ایام کے مطالعہ سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ جب وہ لندن کے ایک اسپتال میں اپنی بیماری سے لڑ رہے تھے تو انہوں نے ایک کالم ’بیمار کا حال اچھا ہے‘ کے عنوان سے تحریر کیا جسے پڑھ کر بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ شخص اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ لندن میں ہی طویل علالت کے بعد یہ عظیم سفرنامہ نگار ایک ایسے سفر پر روانہ ہو گیا جہاں سے کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔

ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سا کہیں جسے
۔

اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے


ﺑﮯ ﺩﺭﺩ ﺳﻨﻨﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭼﻞ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﭼﮭﯽ ﻏﺰﻝ
ﻋﺎﺷﻖ ﺗﺮﺍ ﺭﺳﻮﺍ ﺗﺮﺍ ﺷﺎﻋﺮ ﺗﺮﺍ ﺍﻧﺸﺎؔ

مجلس اقبال جی سی یو لاہور

show more

Share/Embed