A tribute to Parveen Shakir on her 27th death anniversary by Majlis E Iqbal ,GCU Lahore.
54 views
0

 Published On Dec 27, 2021

آج رومان کی شاعرہ پروین شاکر کا یوم وفات ہے.

پروین شاکر ۲۴ نومبر ۱۹۵۲ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے اسلاف کا وطن ہندوستان کے صوبہ بہار میں ہیرپا سرائی دربھنگہ کے نزدیک محلہ چندن پٹی تھا۔ ان کے والد سید ثاقب حسین خود بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کرتے تھے، اس نسبت سے پروین شاکر اپنے نام کے ساتھ شاکر لکھتی تھیں۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کے والد پاکستان ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہوئے۔

پروین کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ،بعد میں رضیہ گرلز ہائی سکول کراچی میں داخلہ لیا، جہاں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر سرسید گرلز کالج کراچی سے آئی۔اے اور انگلش لٹریچرکے ساتھ بی۔اے آنرز کیا۔ ۱۹۷۲ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کا امتحان اعلیٰ درجہ میں پاس کیا، پھر لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور دونوں میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے ’’جنگ میں ذرائع ابلاغ کا کردار‘‘ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی ہوئیں لیکن ان کا تعلیمی سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے وابستہ ہو گئیں، جہاں سے انھوں نے بینک ایڈمنسٹریشن میں ایم۔اے کیا۔

تعلیمی سلسلہ ختم ہوا تو پروین نے عبداللہ گرلز کالج کراچی میں انگریزی لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی اور نو برس تک درس و تدریس کی خدمات انجام دیتی رہیں۔ اس کے بعد سول سروس یعنی سی ایس پی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئیں۔ کامیاب ہونے کے بعد محکمہ کسٹمز میں کلکٹر ہو گئیں۔ اس عہدے سے ترقی کرتے ہوئے پرنسپل سیکریٹری پھر سی۔ آر۔ بی۔آر اسلام آباد میں مقرر ہوئیں۔

پروین شاکر کی شاعری میں ایک نسل کی نمائندگی ہوتی ہے اور ان کی شاعری کا مرکزی نقطہ عورت رہی ہے۔
فہمیدہ ریاض کہتی ہیں، پروین شاکر کے اشعار میں لوک گیت کی سادگی اور کلاسیکی موسیقی کی نزاکت بھی ہے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں بھولے پن اور نفاست کا دل آویز سنگم ہیں۔

انیس سو ستتر میں ان کا پہلا شاعری مجموعہ ’خوشبو‘ شائع ہوا جس کے دیباچے میں انہوں نے لکھا تھا
’جب ہولے سے چلتی ہوئی ہوا نے پھول کو چُوما تھا تو خوشبو پیدا ہوئی تھی۔‘

ان کے اشعار کو غور سے پڑھنے پر احساس ہوتا ہے کہ اس میں سے اکثر آب بیتی ہے۔ زندگی کے مختلف موڑوں کو انہوں نے ایک ربط دینے کی کوشش کی ہے۔
ان کے اشعار میں ایک لڑکی کو بیوی، ماں اور آخر میں ایک عورت تک کے سفر کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایک بیوی کے ساتھ ساتھ ماں بھی تھیں، شاعرہ بھی اور روزی روٹی کمانے کی ذمہ دار بھی۔
انہوں نے ازدواجی محبت کو جتنے مختلف پہلوؤں سے چھوا اتنا کوئی مرد شاعر اگر چاہے بھی تو نہیں چھوسکتا۔ انہوں نے جنسی تعلقات، حمل، بچوں کی پیدائش، وصال اور طلاق جیسے موضوعات کو چھوا جس پر ان کے ہم عصر مرد شاعروں کی نظر کم ہی پڑی ہے۔
ماں بننے کے تجربے پر تو خواتین شاعروں نے لکھا ہے لیکن باپ بننے کے احساس پر کسی مرد شاعر کی نظر نہیں پڑی ہے۔
ایک نظم میں پروین شاکر نے اپنے جوان بیٹے سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا کہ انہیں اس بات پر شرم نہیں آنی چاہیے کہ آپ ایک شاعرہ کے بیٹے کے طور پر معروف ہیں نہ کہ ایک والد کے بیٹے کے طور پر۔ اکیسویں صدی کے بچوں کے شعور پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتی ہے۔

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

شعروں میں ان کی زبان سادہ ہو یا ادبی لیکن ان کی شاعری میں صبر و تحمل کو کافی ترجیح دی گئی ہے۔ ان کے اشعار سے فیض اور فراز کی جھلک ضرور ملتی ہے لیکن انہوں نے ان کی نقل نہیں کی۔

انہوں نے نصیر علی نامی شخص سے شادی کی لیکن وہ شادی زیادہ عرصے تک نہیں چل پائی۔

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

پروین شاکر کی شاعری میں کربناک موڑ اس وقت آتا ہے جب ان کے شوہر نصیر علی سے ان کی علیحدگی ہو جاتی ہے اور جب وہ اس موضوع پر اظہار خیال کرتی ہیں تو ان کے بیان میں بہت تلخی آجاتی ہے۔

پروین شاکر نے شروع میں ’بنی‘ کے نام سے لکھا کرتی تھیں۔ احمد ندیم قاسمی ان کے استاد تھے اور انہیں وہ ’اموجان‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔
پروین شاکر نے اپنی عمر کے بیالیس برسوں میں ستائیس برس شاعری کی نذر کیے۔
۲۶ دسمبر ۱۹۹۴ء کو اسلام آباد میں ایک سڑک کے حادثے کا شکار ہو گئیں۔

ان کی پہلی کتاب “ خوشبو “ کو آدم جی ایواڈ سے نوازا گیا ۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا ۔

انکی کتابوں کے نام ترتیب وار کچھ یوں ہیں ۔

خوشبو (١٩٧٦)
سد برگ (١٩٨٠)
خود کلامی (١٩٨٠)
انکار (١٩٩٠)
ماہِ تمام (١٩٩٤)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلنے کا حوصلہ نہیں ، رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

اے میری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کر دیا

ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا

اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا

ممکنہ فیصلوں میں ایک ، ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی ، اس نے کمال کر دیا

میرے لبوں پہ مہر تھی ، پر شیشہ رو نے تو
شہر شہر کو میرا واقفِ حال کر دیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہہ کو خواب و خیال کر دیا

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری یہ کیا مجھ کو بحال کر دیا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے

ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی
اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے


یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہوگی
اور کچھ روز ، کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ہے

رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن
رات کے ہاتھ پہ اب کوئی دیا چاہتا ہے

تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تیری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
۔۔۔

سلگ رہا ہے میرا شہر ، جل رہی ہے ہوا
یہ کیسی آگ ہے جس میں پگھل رہی ہے ہوا


۔۔۔۔

show more

Share/Embed